زیارت رسول ﷺ

تبصرہ اویسی غفرلہ:
                        یہ ایک مسلّم حقیقت ہے جس کا نہ سابق دور میں کسی کو انکار تھا نہ دورحاضرہ میں کسی مدعی اسلام کو انکار ہے کہ انسان کی روح نہیں مرتی وہ جیسے عالم بالا سے جلوئہ ربانی کی حیثیت انسان کے بدن میں آئی ویسے ہی جسم سے نکل کر عالم بالا میں چلی گئی اورکافر کی روح سجین میں مقید ہوگئی ۔ اس کی تحقیق فقیر کے رسالہ ”روح نہیں مرتی “ میں پڑھئے ۔
                        عام انسان کی روح جسم سے نکل جانے کے باوجود (علیین میں ہو جیسے اہل ایمان کی روح یا سجین میںجیسے کفار کی روح ) قبر میں پڑے ہوئے جسم سے قوی رابطہ رہتاہے جیسے بجلی کاکرنٹ ، کہ جونہی قبر پر جانے والا جاتاہے اوراسے سلام کرتاہے توروح اسے جانتی پہچانتی اورسلام کا جواب دیتی ہے ۔ تفصیل دیکھئے فقیر کا رسالہ ”روح جانتی پہچانتی ہے “ ۔
مرنے کے بعد اجسام کی کیفیت:
                        اہلسنّت کے نزدیک انبیاءعلیٰ نبیناوعلیہم السلام کے اجسام مبارکہ مع الروح حیاة حسّی حقیقی کے ساتھ مزارات میں زندہ موجود ہوتے ہیں ان پر موت کاورود ہوا لیکن صرف ایک آن کے لئے پھر ان کی ارواح ان کے اجسام میں واپس تشریف لاتی ہےں۔ اما م احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ نے حدائق بخشش میں فرمایا
  انبیاءکو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
                        اس کی مفصل شرح فقیر کی تصنیف ”الحقائق فی الحدائق جلد نمبر۰۱ “ میں پڑھئے ،مخالفین تما م انبیاءعلیہم السلام کی حیاتِ برزخی کے قائل ہیں بلکہ ان کے بعض اتنا بے باک ہیں کہ کُھلم کھلا کہہ دیتے ہیں کہ وہ مرکر مٹی میں مل گئے ۔(معاذ اللہ)
احادیث حیات الانبیاء(علیہم السلام)
حدیث شریف بخاری ومسلم میں اس طرح ہے (۱)
 قال رسول اللّٰہ من رانی فی المنام فسیر انی فی الیقظة ولا یتمثل الشیطان بی ۔
                        حضور نے فرمایا جس نے سوتے میں میری زیارت کی تو عنقریب جاگتے میں بھی میری زیارت سے مشرف ہوگا۔ شیطان کوشش کے باوجود بھی میری شکل اختیار نہیںکرسکتا ہے ۔
 (بخاری شریف ج۲ص۵۳۰۱۔مسلم شریف ج۲ص۲۴۲)
فائدہ: یہ حدیث اپنے مفہوم میں اتنی واضح ہے کہ اس کا انکار صرف وہی شخص کرے گا جس کے دل پر مہر لگ چکی ہوگی ۔ اس حدیث شریف سے چھ باتیں ثابت ہوئیں ۔
۱) شیطان عالم خواب اور بیداری میں حضور کی شکل اختیار نہیں کرسکتاہے ۔
۲) سوتے اور جاگتے میں جس نے حضور کی زیارت کی ۔ وہ حضورہی کی زیارت سے مشرف ہوا۔ کسی خبیث جن یا شیطان کو اس نے نہیں دیکھا۔
۳) یہ فرمانِ عالی تمام امت ِمسلمہ کے لئے نوید اوربشارت ہے ۔ چاہے وہ صحابہ کرا م ہوں یا پندرہ سو سال بعد آنے والا امتی ۔ کیونکہ سرکار نے یہ نہیں فرمایا کہ اے میرے صحابہ یہ فرمان صرف تمہارے لئے ہے ۔ تمہارے بعد والے امتیوں کے لئے نہیں ۔
۴) جس نے سرکار کی خواب میں زیارت کی تو سرکار کو اس بات کا علم ہوجاتاہے کہ وہ میری زیارت کررہا ہے ۔ اسی لئے توجاگتے میں بھی اس کو اپنی زیارت سے مشرف فرماتے ہیں ۔
۵ ) یہ حدیث حیات النبی کی بہت بہترین دلیل ہے کہ قبر انور میں جانے کے بعد بھی جہاں چاہنا اورجس کو چاہنا زیارت کروادینا یہ حضو ر کے لئے ممکن ہی نہیں بلکہ ثابت بھی ہے جیسا کہ بے شمار بزرگانِ دین کے واقعات مشہور اور برزبانِ خلقِ خدا ہیں ۔
 ۶) یہ نہیں فرمایا کہ جس نے خواب میں میری زیارت کی تو جاگتے میں فقط ایک مرتبہ ہی میری زیارت سے مشرف ہوگا بلکہ مفہوم حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس نے خواب میں ایک مرتبہ زیارت کرلی توجاگتے میں اسے ضرور زیارت نصیب ہوگی ۔ اب یہ سرکار کے کرم پرمنحصر ہے کہ جاگتے میںکتنی مرتبہ زیارت کرواتے ہیں ۔

۷) جب حضو ر نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارا صلوٰة وسلام مجھ پر پیش کیا جاتاہے اورمیں اسے سنتا ہوں اوراس کا جواب بھی دیتاہوں توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ سرکار کیا بعد الوصال بھی ؟ (آپ ہمارے درود وسلام کو ملاحظہ فرمائیں گے ) توسرکار نے ارشاد فرمایا:
 ان اللّٰہ عزوجل حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاءصلوٰة اللّٰہ علیھم ۔
ترجمہ: بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاءکے جسموں کو کھائے ۔
(ابو داود ص۵۱ج ۱، مسند امام احمد ص۸ج۴


قابل توجہ امر یہ ہے کہ روح بھی سنتی ہے اوربرزخی حیات کا تعلق بھی درحقیقت روح کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اگر چہ جسم گل سڑ بھی کیوں نہ جائے لیکن روح باقی رہتی ہے ۔اس لئے صحابہ کرام کے جواب میں حضور فقط اتنا بھی فرما سکتے تھے کہ ہاں میں تمہارے صلوٰة وسلام کو سنوں گا۔ یعنی میری روح سُنے گی مگر ان کے جواب میں یہ فرمانا کہ اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے ۔ یہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ قبر انور میں جانے کے بعد انبیاءکرام کی حیات فقط برزخی نہیں بلکہ دنیاوی وجسمانی بھی ہے اور وہ اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔
                        خلاصہ یہ کہ انبیاءکرام علیہم السلام کے اجسام صحیح وسالم رہنے پر احادیث صریحہ دال ہیں جن کا کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔

0 comments:

Post a Comment