انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا

انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا:

            ترمذی شریف ”باب فضائل القرآن“ میں ہے
عن ابن عباس قال ضرب بعض اصحاب النبی خباءہ علی قبر وھولا یحسب انہ قبر فاذا قبر انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فاتی النبی فقال یارسول اللّٰہ انی ضربت خبائی علیٰ قبر وانا لا احسب انہ قبرفاذا فیہ انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فقال النبی ھی المانعة ھی المنجیة تنجیہ من عذاب القبر (ترمذی شریف۔ باب فضائل القرآن ج۲ص۷۱۱)
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ کسی صحابی نے ایک قبر کے اوپر خیمہ لگایا۔ انہیں گمان نہ تھا کہ یہ قبر ہے پس وہ ایک انسا ن کی قبر تھی تواس انسان نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔وہ صحابی نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اورمجھے معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے ۔پس سرکار! اس میں توانسان ہے جس نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔ پس نبی کریم نے ارشاد فرمایا۔ سورئہ ملک عذابِ قبر کو روکنے اورنجات دلانے والی ہے ۔
فوائد الحدیث:
۱) صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ عقیدہ تھا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید ممکن ہے تبھی تو انہیں یہ گمان نہ گذرا کہ کوئی جن یا فرشتہ تلاوت کررہا ہوگا بلکہ انہوں نے انسان ہی کا ذکر کیا۔
۲) حضور نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید کیونکر ممکن ہے ؟ بلکہ اس صحابی کا قول کہ قبر میں انسان تھا۔ برقرار رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سورئہ ملک عذابِ قبر سے نجات دلاتی ہے ۔
۳) عذاب دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اورعذابِ قبر سے نجات دلانے والی سورة قرآن مجید ہے تویہ کہنا کیونکر جائز ہوگا کہ اللہ کسی کو عذاب میں مبتلا فرمائے تو حضور بھی بارگاہِ ایزدی میں سفارش فرما کر اسے عذاب سے نجات نہیں دلاسکتے اگر سورة نجات دلاسکتی ہے تو حضور اس سے اولیٰ ترہیں ۔
۴) مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاءعلیہم السلام اوراولیاءکرام اپنی قبروں میں جانے کے بعد صرف برزخی اورروحانی حیات سے ہی موصوف نہیں ہوتے بلکہ جسمانی حیات بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ سُننا ، بولنا، پڑھنا اورحرکت کرنا جسمانی حیات کے لوازمات میں سے ہیں ۔ پس اللہ کے بیشمار برگزیدہ بندے اس صفت سے موصوف ہوتے ہیں ۔
آیت اِنَّکَ لَا تُسمِعُ المَوتیٰ کے جوابات:
                        اس آیت سے متعلق بعض لوگوں نے ایسا کلام کیا جس کی حقیقت حباب اورسراب سے زیادہ بے وقعت ہے مثلاً آیت مذکورہ کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ۔ ”بیشک آپ مُردوں کو نہیں سُنا سکتے ۔“ لیکن کسی صاحب شعور سے یہ بات مخفی نہیں کہ ” لَاتُسمِعُ المَوتیٰ“
 آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے ۔میں ”سکتے “ کسی بھی لفظ کا ترجمہ نہیں کیونکہ ”تُسمِعُ “ جس کا مصدر ”اسماع“ ہے اس کا معنی ”سنا سکنا“ نہیں بلکہ ” سنانا “ہے ۔پس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں ہوا:
"یقینا آپ مُردوں کو نہیں سناتے“ اوراس ترجمے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ۔
تحریف قرآن
                        مزید برآں یہ کہ آیت کافروں کے لئے نازل ہوئی لیکن اسے مومنین پر چسپاں کرنے کی بھیانک سازش کی گئی ۔ آپ خود سورة نمل کی آیت نمبر ۰۸، ۱۸ کو ملا کر پڑھیں توبات واضح ہوجائے گی کہ نہ سنانا کافروں کے لئے ہے اورمومنین کے لئے سنانا ثابت ہے آیات ملاحظہ ہوں ۔
انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعاءاذا ولو مدبرین وما انت بھا دالعمی عن ضلا لتھم ان تسمع الا من یومن بایتنا فھم مسلمون ۔
(سورہ نمل ،آیت ۰۸،۱۸)
بے شک آپ نہیں سناتے مردوں کو اورنہیں سناتے بہروں کو پُکار ۔جب وہ پیٹھ پھیر ے جارہے ہوں اورنہ آپ راہ پر لانے والے ہیں اندھوں کو ان کی گمراہی سے آپ نہیں سناتے مگر ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں تووہی مسلمان ہیں ۔
فائدہ: دیکھنا یہ ہے کہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں یا مردہ سے اگر کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جواس دارِ فانی سے رحلت کرکے عالم برزخ میں پہنچ گئے تب یہ آیات انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے لئے بعد الممات سُننے کا ثبوت فراہم کررہی ہیں ۔وہ اس طرح کہ ان آیات میں دوقسم کے لوگوں کا بیان ہوا ایک وہ جنہیں سنانا ثابت نہیں اوروہ کافر ہیں ۔ دوسرے وہ حضرات ہیں جن کے لئے سنانا ثابت ہیں اوروہ مسلمان ہیں۔
                        پس اہلِ حق کا بھی یہی کہنا ہے کہ انبیاءواولیاءکی قبور پر حاضر ہوکر ان سے گذارشات کرنا بالکل جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں مومنین کے لئے سنانا ثابت ہے ۔ اس لئے وہ ہماری پکار ملاحظہ فرماتے ہیں۔
                        اگر یہ کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا بیان نہیں جو حقیقتاً اس دنیا سے کوچ کرگئے بلکہ کافروں کو مردہ بہرے اور اندھوں سے تعبیر کرکے یہ بات واضح کردی کہ یہ لوگ احکام الہٰی اورفرامین رسول کبریاء سے نافرمانی اورروگردانی میں مُردوں ، اندھوں اوربہروں کی مانند ہوچکے ہیں کہ انہیں حق کی پکار کسی طرح بھی نافع نہیں تو ہمارا کلام ان آیات سے متعلق نہیں کیونکہ ہمارا کلام تواس بارے میں ہے کہ انبیاءواولیاءقبروں میں جانے کے بعد بھی سنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں ۔ پس دونوں صورتیں ہمارے مدعا کے خلاف نہیں یعنی اگر آیات زندہ کے بارے میں ہوں توہمار ا کلام اس میںنہیں ۔ اگر مردہ سے متعلق ہوں تومسلمانوں کے لئے سنانا ثابت ہے ۔

0 comments:

Post a Comment