صحابہ واولیاءکے اجسام

صحابہ واولیاءکے اجسام
احادیث:
                        صحابہ کرام اور اولیاءکرام کا معاملہ توان کے اجسام میں سے جس کو اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہے وہ اس پر قادر ہے ۔
۱) کتاب الجنائز بخاری جلد اوّل میں ہے:
عن عروة بن زبیر لما سقط علیہم الحائط فی زمان الولید بن عبد الملک اخذ وانی بناءہ فیدت لھم قدم ففزعواوظنوا نھاقدم النبیفما وجدوا احدا یعلم ذالک حتی قال لھم عروة لاواللّٰہ ماحی قدم النبی ماھی الاقدم عمر ۔
(بخاری شریف ص۶۸۱)
ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں جب حضور کے حجرے کی دیوار گر گئی تووہ حضرات اس کو بنانے لگے انہیں ایک قدم نظر آیا (پنڈلی گھٹنے تک) تووہ گھبرا گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ نبی پاک کا قدم انور ہے تواس وقت انہیںکوئی بھی ایسا شخص نہ ملا جو اس حقیقت حال سے آگاہ کرسکتا۔ یہاں تک کہ حضرت عروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے انہوں نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ نبی پاک کا قدم پاک نہیںہے بلکہ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم مبارک ہے ۔
فوائد الحدیث:
۱) حضور کی قبر انور حجرے میں ہے اور آپ زندہ بحیات حقیقی ہیں۔ صحابہ تابعین حضرات کا یہ کہنا کہ نبی پاک کاقدم انور ہے ۔ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ وہ سرکارکی جسمانی حیات کے قائل تھے ۔
۲) یہ واقعہ ولید بن عبدالملک کے زمانے کا ہے جو حضور کے چھہتر سال بعد اورحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے تریسٹھ سال بعد خلیفہ بنایا گیا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قدم مبارک میں ذرا سا بھی تغیر وتبدل نہ ہوا۔ اورحضرت عروہ بن زبیر فوراً پکارا ٹھے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قدم مبارک ہے حضور کا نہیں ۔
۳) حضور کی ذات ِوالا صفات توبہت ارفع واعلیٰ ہے ۔ یہاں توسرکار کے خلیفہ دوم کا جسم تک صحیح سالم ہے چہ جائیکہ سرکار کے جسم انور کے متعلق بیہودہ اور لغوبات بکی جائیں ۔
لطیفہ عجیبہ :
                        حضرت غزالی زمان علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ الرحمة نے فرمایا کہ میں مسجد نبوی شریف میں نجدیوں کی جماعت کے بعد اپنے خود نماز پڑھ رہا تھا فراغت کے بعد مجھ سے ایک عربی نے کہا کیا آپ نے نماز لوٹائی ہے میں خاموش ہوگیا ۔اس نے خود کہا کہ میں نے لوٹائی ہے۔ میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا کہ اس امام کا عقیدہ ہے کہ حضور کا جسم قبر میں ہے اورروح اعلیٰ علیین میں یہ گمراہ امام ہے اس نے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جسم کو مٹی کھا گئی (معاذ اللہ ) گویا وہ بدتر ین نجدی تھا۔
عن عبدالرحمن ابن ابی صعصعة انہ بلغہ ان عمروبن الجموح وعبداللّٰہ بن عمرو الانصار یین السلمیین کاناقد حفرا لسیل من قبر یھما وکان قبرا ھما مایلی السیل وکافانی قبر واحد وھما ممن استشھد یوم احد فحفر عنہما لیغیرا من مکانھما فوجد الم یتفیرا کانھما ماتا بالامس وکان احدھما قد جرح فوضع یدہ علیٰ جرحہ فدفن وھو کذالک فامبطت یدہ عن جرحہ ثم ارسلت فرجعت کما کانت وکان بین احد وبین یوم حفر عنھما ست اربعون سنة ۔
( موطا امام مالک ص۲۸۴)
ترجمہ: حضرت عبدالرحمان بن ابی صعصعہ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ خبر پہنچی کہ قبیلہ بنو سلم کے انصاری صحابہ میں سے حضرت عمرو بن جموح اورعبداللہ بن عمرو کی قبر کے بعض حصّہ کو سیلاب بہالے گیا اوریہ دونوں ایک ہی قبر میں تھے یہ دونوں حضرات جنگ اُحد میں شہیدہوئے تھے ان کی قبر کو کھودا گیا تاکہ ان کی قبر کسی دوسری جگہ بنائی جائے توان کواس حالت میں پایا گیا کہ گویا کل ہی ان کا وصال ہوا ہے ۔ ان میں سے ایک زخمی تھے ۔ا نہوں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھ لیا تھا۔ اوراسی حالت میں دفن کردئیے گئے تھے پھران کا ہاتھ زخم سے ہٹا یا گیا اسے پھر چھوڑا گیا تو وہیں لوٹ آیا جہاں پہلے تھا۔ جنگ اُحد اوران کی قبر کھودنے کے درمیان چھیالیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ ( موطا امام مالک صفحہ۲۸۴)
فوائد الحدیث:
۱) یہ واقعہ غزوئہ احد کے چھیالیس سال اورحضور کے وصال کے اڑتیس سال بعد ظہور پذیر ہوا۔ اس وقت بھی لوگوں کا عقیدہ یہی تھا کہ ان اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجساد صحیح سالم ہوں گے تبھی توان کے جسموں کو کسی اور جگہ رکھنے کے لئے ان کی قبر کو کھودا۔
۲) شہداءاحد کی قبریں اتنی واضح کرکے بنائی گئی تھیں کہ چھیالیس سال بعد ان کی قبروں کے نشان نمایاں تھے کہ انہیں پہچان لیا گیا۔
۳) صحابی کے ہاتھ کوہٹائے جانے کے باوجود اس کا واپس اسی جگہ آجانا ان کی جسمانی حیات کی واضح دلیل ہے ۔
۴) ان کا جسم عام لوگوں کے جسم کی طرح نہ اکڑا اور نہ گلا سڑا ۔الحمد للّٰہ علی ذلک

0 comments:

Post a Comment