مردوں کا قبر میں سننے کا بیان

آیت ۔ وما انت بمسمع من فی القبور ان انت الا نذیر کے جوابات:
ترجمہ: آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں ۔آپ توفقط ڈرانے والے ہیں۔
                        ان آیات کا مفہوم غلط بیان کرکے امت مسلّمہ کو دھوکے میں ڈالا گیا۔ کوئی بھی صاحبِ عقل وخرد اس بات سے بیگانہ نہیں کہ جہاں حضور کے بارے میں یہ فرمان ہے:
آپ تو ڈرانے والے ہیں“۔اس کا تعلق مُردوں سے نہیں ہوگا کیونکہ ڈرانے کاتعلق انہی لوگوں سے ہے جواس دنیا میں موجود ہیں اورجو اس دنیا سے چلے گئے انہیں جہنم سے ڈرانا بے فائدہ اوربے معنی ہے ۔ پس آپ ان آیات کو پڑھ کر یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں پر بھی زندہ کافروں کو ہی مردہ اوراہل قبور سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ آیا ت ملاحظہ ہوں:
وما یستوی الاحیاءولاالا موات ان اللّٰہ یسمع من یشاءوماا نت بمسمع من فی القبور ان انت الا نذیر۔
 (سورة فاطر آیت ۳۲۔۲۲)
ترجمہ: زندہ اورمردے برابر نہیں ۔ بے شک اللہ سناتا ہے جسے چاہے اورآپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ آپ تو فقط ڈرانے والے ہیں ۔
آیات مذکورہ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جن لوگوں کو ڈرانے کا ذکر ہوا یہ وہی لوگ ہیں جن سے سنانے کی نفی ہوئی اورڈرایا زندہ کو جاتاہے نہ کہ مردہ کو تونتیجہ یہ نکلا کہ سنانے کی نفی بھی زندہ لوگوں سے متعلق ہوئیں تو یہ ہمارے مؤقف کے خلاف نہیں کیونکہ ہم ان لوگوں سے متعلق گفتگو کررہے ہیں جواس دارِ فانی سے رحلت کرگئے ۔حالانکہ یہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں ۔ا لحاصل یہ دونوں آیات ہمارے مدعیٰ کے خلاف نہیں۔
                        رہا یہ اعتراض کہ زندہ سے سنانے کی نفی کس طرح تواس بارے میں عرض ہے کہ یہاں پر سنانے سے مراد یہ نہیں کہ وہ فقط کانوں سے سن لیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے دل بھی اس حق کی پکار کو قبول کریں ۔ چونکہ جن لوگوں کے دلوں پر مہر لگ چکی ان حضرات میں حق بات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی ۔ جیسا کہ سورئہ اعراف میں ہے:
ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا ولھم ٰاذان لایسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون ۔ (الاعراف آیت ۹۷۱)
ترجمہ: اوربے شک ہم نے دوزخ کے لئے بہت سے جن اور انسان پیدا کئے ۔ ان کے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اوران کی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اوران کے کان ہیں جن سے وہ نہیں سُنتے ۔ وہ لوگ چوپائیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ وہی غفلت میں مبتلا ہیں۔
                        اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نہ سمجھنا، نہ دیکھنا، نہ سُننا اورچوپائیوں کی طرح ہوجانا بلکہ ان سے بھی زیادہ گیا گذرا ہونا یہ تمام اموران کافروں کے لئے اللہ نے ثابت فرمائے جو چلتے پھرتے کھاتے پیتے بولتے اورسُنتے تھے ۔ چونکہ وہ اللہ کی نافرمانی میں بہت آگے بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے خود اپنے اوپر غفلت اورگمراہی کے اتنے پردے چڑھالئے تھے کہ ان کا واپس آنا ممکن نہ رہا تھا ۔ اس لئے یہ تمام امور ان کے لئے ثابت ہوگئے ۔
                        پس اہل حق بھی یہی کہتے ہیں کہ ان خرابیوں کی بناءپر ان کافروں کو ”الموتیٰ اورمن فی القبور“ سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ نیز مُردوں کے سننے کی نفی کس طرح کی جاسکتی ہے جبکہ بے شمار احادیث سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے :
"عن انس ان النبی قال العبد اذا وضع فی قبرہ وتولّی وذھب اصحابہ حتی انہ یسمع قرع نعالھم "
 (بخاری شریف ج۱ص۸۷۱)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ جب قبر میں دفن کردیا جاتاہے اوراسے چھوڑ کر اس کے ساتھی واپس آجاتے ہیں تومیت ان لوگوں کے قدموں کی چاپ کی آواز سنتی ہے ۔
                        جمہور علماءنے اس حدیث کے متعلق یہی قول کیا کہ وہ میت لوٹ کے جانے والوں کی چاپ کی آواز سنتی ہے۔
                        یہاں فرشتوں کے جوتوں کی آواز مراد نہیں کیونکہ فرشتوں کے لئے قرآن وحدیث میں جوتوں کا ثبوت نہیں تواس کی آواز سُننا کیونکر ممکن ہوگی ۔
                        چونکہ مسلم شریف میں صاف ارشاد ہے ۔یہ انہیں لوگوں کی جوتوں کی آواز ہے جو دفنانے آئے تھے یعنی فرشتوں کے قدموں کی آواز نہیں۔ حدیث ملاحظہ ہو۔
قال رسول اللّٰہ ان المیت اذاوضع فی قبرہ انہ یسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا ۔ (مسلم ج۲ص۱۰۷۳)
ترجمہ: رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ میت کو جب قبر میں دفنا یا جاتاہے تو میت ان کے قدموںکی چاپ کی آواز سنتی ہے جب وہ لوگ واپس جاتے ہیں۔
نوٹ: صرف چند بحثیں عرض کی گئی ہیں مزید فقیر کے رسائل پڑھئے اورامام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کی تصنیف ”روحو ں کی دنیا“ کامطالعہ کیجئے ۔ فقط والسلام

انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا

انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا:

            ترمذی شریف ”باب فضائل القرآن“ میں ہے
عن ابن عباس قال ضرب بعض اصحاب النبی خباءہ علی قبر وھولا یحسب انہ قبر فاذا قبر انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فاتی النبی فقال یارسول اللّٰہ انی ضربت خبائی علیٰ قبر وانا لا احسب انہ قبرفاذا فیہ انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فقال النبی ھی المانعة ھی المنجیة تنجیہ من عذاب القبر (ترمذی شریف۔ باب فضائل القرآن ج۲ص۷۱۱)
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ کسی صحابی نے ایک قبر کے اوپر خیمہ لگایا۔ انہیں گمان نہ تھا کہ یہ قبر ہے پس وہ ایک انسا ن کی قبر تھی تواس انسان نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔وہ صحابی نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اورمجھے معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے ۔پس سرکار! اس میں توانسان ہے جس نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔ پس نبی کریم نے ارشاد فرمایا۔ سورئہ ملک عذابِ قبر کو روکنے اورنجات دلانے والی ہے ۔
فوائد الحدیث:
۱) صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ عقیدہ تھا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید ممکن ہے تبھی تو انہیں یہ گمان نہ گذرا کہ کوئی جن یا فرشتہ تلاوت کررہا ہوگا بلکہ انہوں نے انسان ہی کا ذکر کیا۔
۲) حضور نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید کیونکر ممکن ہے ؟ بلکہ اس صحابی کا قول کہ قبر میں انسان تھا۔ برقرار رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سورئہ ملک عذابِ قبر سے نجات دلاتی ہے ۔
۳) عذاب دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اورعذابِ قبر سے نجات دلانے والی سورة قرآن مجید ہے تویہ کہنا کیونکر جائز ہوگا کہ اللہ کسی کو عذاب میں مبتلا فرمائے تو حضور بھی بارگاہِ ایزدی میں سفارش فرما کر اسے عذاب سے نجات نہیں دلاسکتے اگر سورة نجات دلاسکتی ہے تو حضور اس سے اولیٰ ترہیں ۔
۴) مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاءعلیہم السلام اوراولیاءکرام اپنی قبروں میں جانے کے بعد صرف برزخی اورروحانی حیات سے ہی موصوف نہیں ہوتے بلکہ جسمانی حیات بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ سُننا ، بولنا، پڑھنا اورحرکت کرنا جسمانی حیات کے لوازمات میں سے ہیں ۔ پس اللہ کے بیشمار برگزیدہ بندے اس صفت سے موصوف ہوتے ہیں ۔
آیت اِنَّکَ لَا تُسمِعُ المَوتیٰ کے جوابات:
                        اس آیت سے متعلق بعض لوگوں نے ایسا کلام کیا جس کی حقیقت حباب اورسراب سے زیادہ بے وقعت ہے مثلاً آیت مذکورہ کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ۔ ”بیشک آپ مُردوں کو نہیں سُنا سکتے ۔“ لیکن کسی صاحب شعور سے یہ بات مخفی نہیں کہ ” لَاتُسمِعُ المَوتیٰ“
 آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے ۔میں ”سکتے “ کسی بھی لفظ کا ترجمہ نہیں کیونکہ ”تُسمِعُ “ جس کا مصدر ”اسماع“ ہے اس کا معنی ”سنا سکنا“ نہیں بلکہ ” سنانا “ہے ۔پس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں ہوا:
"یقینا آپ مُردوں کو نہیں سناتے“ اوراس ترجمے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ۔
تحریف قرآن
                        مزید برآں یہ کہ آیت کافروں کے لئے نازل ہوئی لیکن اسے مومنین پر چسپاں کرنے کی بھیانک سازش کی گئی ۔ آپ خود سورة نمل کی آیت نمبر ۰۸، ۱۸ کو ملا کر پڑھیں توبات واضح ہوجائے گی کہ نہ سنانا کافروں کے لئے ہے اورمومنین کے لئے سنانا ثابت ہے آیات ملاحظہ ہوں ۔
انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعاءاذا ولو مدبرین وما انت بھا دالعمی عن ضلا لتھم ان تسمع الا من یومن بایتنا فھم مسلمون ۔
(سورہ نمل ،آیت ۰۸،۱۸)
بے شک آپ نہیں سناتے مردوں کو اورنہیں سناتے بہروں کو پُکار ۔جب وہ پیٹھ پھیر ے جارہے ہوں اورنہ آپ راہ پر لانے والے ہیں اندھوں کو ان کی گمراہی سے آپ نہیں سناتے مگر ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں تووہی مسلمان ہیں ۔
فائدہ: دیکھنا یہ ہے کہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں یا مردہ سے اگر کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جواس دارِ فانی سے رحلت کرکے عالم برزخ میں پہنچ گئے تب یہ آیات انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے لئے بعد الممات سُننے کا ثبوت فراہم کررہی ہیں ۔وہ اس طرح کہ ان آیات میں دوقسم کے لوگوں کا بیان ہوا ایک وہ جنہیں سنانا ثابت نہیں اوروہ کافر ہیں ۔ دوسرے وہ حضرات ہیں جن کے لئے سنانا ثابت ہیں اوروہ مسلمان ہیں۔
                        پس اہلِ حق کا بھی یہی کہنا ہے کہ انبیاءواولیاءکی قبور پر حاضر ہوکر ان سے گذارشات کرنا بالکل جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں مومنین کے لئے سنانا ثابت ہے ۔ اس لئے وہ ہماری پکار ملاحظہ فرماتے ہیں۔
                        اگر یہ کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا بیان نہیں جو حقیقتاً اس دنیا سے کوچ کرگئے بلکہ کافروں کو مردہ بہرے اور اندھوں سے تعبیر کرکے یہ بات واضح کردی کہ یہ لوگ احکام الہٰی اورفرامین رسول کبریاء سے نافرمانی اورروگردانی میں مُردوں ، اندھوں اوربہروں کی مانند ہوچکے ہیں کہ انہیں حق کی پکار کسی طرح بھی نافع نہیں تو ہمارا کلام ان آیات سے متعلق نہیں کیونکہ ہمارا کلام تواس بارے میں ہے کہ انبیاءواولیاءقبروں میں جانے کے بعد بھی سنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں ۔ پس دونوں صورتیں ہمارے مدعا کے خلاف نہیں یعنی اگر آیات زندہ کے بارے میں ہوں توہمار ا کلام اس میںنہیں ۔ اگر مردہ سے متعلق ہوں تومسلمانوں کے لئے سنانا ثابت ہے ۔

صحابہ واولیاءکے اجسام

صحابہ واولیاءکے اجسام
احادیث:
                        صحابہ کرام اور اولیاءکرام کا معاملہ توان کے اجسام میں سے جس کو اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہے وہ اس پر قادر ہے ۔
۱) کتاب الجنائز بخاری جلد اوّل میں ہے:
عن عروة بن زبیر لما سقط علیہم الحائط فی زمان الولید بن عبد الملک اخذ وانی بناءہ فیدت لھم قدم ففزعواوظنوا نھاقدم النبیفما وجدوا احدا یعلم ذالک حتی قال لھم عروة لاواللّٰہ ماحی قدم النبی ماھی الاقدم عمر ۔
(بخاری شریف ص۶۸۱)
ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں جب حضور کے حجرے کی دیوار گر گئی تووہ حضرات اس کو بنانے لگے انہیں ایک قدم نظر آیا (پنڈلی گھٹنے تک) تووہ گھبرا گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ نبی پاک کا قدم انور ہے تواس وقت انہیںکوئی بھی ایسا شخص نہ ملا جو اس حقیقت حال سے آگاہ کرسکتا۔ یہاں تک کہ حضرت عروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے انہوں نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ نبی پاک کا قدم پاک نہیںہے بلکہ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم مبارک ہے ۔
فوائد الحدیث:
۱) حضور کی قبر انور حجرے میں ہے اور آپ زندہ بحیات حقیقی ہیں۔ صحابہ تابعین حضرات کا یہ کہنا کہ نبی پاک کاقدم انور ہے ۔ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ وہ سرکارکی جسمانی حیات کے قائل تھے ۔
۲) یہ واقعہ ولید بن عبدالملک کے زمانے کا ہے جو حضور کے چھہتر سال بعد اورحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے تریسٹھ سال بعد خلیفہ بنایا گیا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قدم مبارک میں ذرا سا بھی تغیر وتبدل نہ ہوا۔ اورحضرت عروہ بن زبیر فوراً پکارا ٹھے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قدم مبارک ہے حضور کا نہیں ۔
۳) حضور کی ذات ِوالا صفات توبہت ارفع واعلیٰ ہے ۔ یہاں توسرکار کے خلیفہ دوم کا جسم تک صحیح سالم ہے چہ جائیکہ سرکار کے جسم انور کے متعلق بیہودہ اور لغوبات بکی جائیں ۔
لطیفہ عجیبہ :
                        حضرت غزالی زمان علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ الرحمة نے فرمایا کہ میں مسجد نبوی شریف میں نجدیوں کی جماعت کے بعد اپنے خود نماز پڑھ رہا تھا فراغت کے بعد مجھ سے ایک عربی نے کہا کیا آپ نے نماز لوٹائی ہے میں خاموش ہوگیا ۔اس نے خود کہا کہ میں نے لوٹائی ہے۔ میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا کہ اس امام کا عقیدہ ہے کہ حضور کا جسم قبر میں ہے اورروح اعلیٰ علیین میں یہ گمراہ امام ہے اس نے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جسم کو مٹی کھا گئی (معاذ اللہ ) گویا وہ بدتر ین نجدی تھا۔
عن عبدالرحمن ابن ابی صعصعة انہ بلغہ ان عمروبن الجموح وعبداللّٰہ بن عمرو الانصار یین السلمیین کاناقد حفرا لسیل من قبر یھما وکان قبرا ھما مایلی السیل وکافانی قبر واحد وھما ممن استشھد یوم احد فحفر عنہما لیغیرا من مکانھما فوجد الم یتفیرا کانھما ماتا بالامس وکان احدھما قد جرح فوضع یدہ علیٰ جرحہ فدفن وھو کذالک فامبطت یدہ عن جرحہ ثم ارسلت فرجعت کما کانت وکان بین احد وبین یوم حفر عنھما ست اربعون سنة ۔
( موطا امام مالک ص۲۸۴)
ترجمہ: حضرت عبدالرحمان بن ابی صعصعہ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ خبر پہنچی کہ قبیلہ بنو سلم کے انصاری صحابہ میں سے حضرت عمرو بن جموح اورعبداللہ بن عمرو کی قبر کے بعض حصّہ کو سیلاب بہالے گیا اوریہ دونوں ایک ہی قبر میں تھے یہ دونوں حضرات جنگ اُحد میں شہیدہوئے تھے ان کی قبر کو کھودا گیا تاکہ ان کی قبر کسی دوسری جگہ بنائی جائے توان کواس حالت میں پایا گیا کہ گویا کل ہی ان کا وصال ہوا ہے ۔ ان میں سے ایک زخمی تھے ۔ا نہوں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھ لیا تھا۔ اوراسی حالت میں دفن کردئیے گئے تھے پھران کا ہاتھ زخم سے ہٹا یا گیا اسے پھر چھوڑا گیا تو وہیں لوٹ آیا جہاں پہلے تھا۔ جنگ اُحد اوران کی قبر کھودنے کے درمیان چھیالیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ ( موطا امام مالک صفحہ۲۸۴)
فوائد الحدیث:
۱) یہ واقعہ غزوئہ احد کے چھیالیس سال اورحضور کے وصال کے اڑتیس سال بعد ظہور پذیر ہوا۔ اس وقت بھی لوگوں کا عقیدہ یہی تھا کہ ان اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجساد صحیح سالم ہوں گے تبھی توان کے جسموں کو کسی اور جگہ رکھنے کے لئے ان کی قبر کو کھودا۔
۲) شہداءاحد کی قبریں اتنی واضح کرکے بنائی گئی تھیں کہ چھیالیس سال بعد ان کی قبروں کے نشان نمایاں تھے کہ انہیں پہچان لیا گیا۔
۳) صحابی کے ہاتھ کوہٹائے جانے کے باوجود اس کا واپس اسی جگہ آجانا ان کی جسمانی حیات کی واضح دلیل ہے ۔
۴) ان کا جسم عام لوگوں کے جسم کی طرح نہ اکڑا اور نہ گلا سڑا ۔الحمد للّٰہ علی ذلک

زیارت رسول ﷺ

تبصرہ اویسی غفرلہ:
                        یہ ایک مسلّم حقیقت ہے جس کا نہ سابق دور میں کسی کو انکار تھا نہ دورحاضرہ میں کسی مدعی اسلام کو انکار ہے کہ انسان کی روح نہیں مرتی وہ جیسے عالم بالا سے جلوئہ ربانی کی حیثیت انسان کے بدن میں آئی ویسے ہی جسم سے نکل کر عالم بالا میں چلی گئی اورکافر کی روح سجین میں مقید ہوگئی ۔ اس کی تحقیق فقیر کے رسالہ ”روح نہیں مرتی “ میں پڑھئے ۔
                        عام انسان کی روح جسم سے نکل جانے کے باوجود (علیین میں ہو جیسے اہل ایمان کی روح یا سجین میںجیسے کفار کی روح ) قبر میں پڑے ہوئے جسم سے قوی رابطہ رہتاہے جیسے بجلی کاکرنٹ ، کہ جونہی قبر پر جانے والا جاتاہے اوراسے سلام کرتاہے توروح اسے جانتی پہچانتی اورسلام کا جواب دیتی ہے ۔ تفصیل دیکھئے فقیر کا رسالہ ”روح جانتی پہچانتی ہے “ ۔
مرنے کے بعد اجسام کی کیفیت:
                        اہلسنّت کے نزدیک انبیاءعلیٰ نبیناوعلیہم السلام کے اجسام مبارکہ مع الروح حیاة حسّی حقیقی کے ساتھ مزارات میں زندہ موجود ہوتے ہیں ان پر موت کاورود ہوا لیکن صرف ایک آن کے لئے پھر ان کی ارواح ان کے اجسام میں واپس تشریف لاتی ہےں۔ اما م احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ نے حدائق بخشش میں فرمایا
  انبیاءکو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
                        اس کی مفصل شرح فقیر کی تصنیف ”الحقائق فی الحدائق جلد نمبر۰۱ “ میں پڑھئے ،مخالفین تما م انبیاءعلیہم السلام کی حیاتِ برزخی کے قائل ہیں بلکہ ان کے بعض اتنا بے باک ہیں کہ کُھلم کھلا کہہ دیتے ہیں کہ وہ مرکر مٹی میں مل گئے ۔(معاذ اللہ)
احادیث حیات الانبیاء(علیہم السلام)
حدیث شریف بخاری ومسلم میں اس طرح ہے (۱)
 قال رسول اللّٰہ من رانی فی المنام فسیر انی فی الیقظة ولا یتمثل الشیطان بی ۔
                        حضور نے فرمایا جس نے سوتے میں میری زیارت کی تو عنقریب جاگتے میں بھی میری زیارت سے مشرف ہوگا۔ شیطان کوشش کے باوجود بھی میری شکل اختیار نہیںکرسکتا ہے ۔
 (بخاری شریف ج۲ص۵۳۰۱۔مسلم شریف ج۲ص۲۴۲)
فائدہ: یہ حدیث اپنے مفہوم میں اتنی واضح ہے کہ اس کا انکار صرف وہی شخص کرے گا جس کے دل پر مہر لگ چکی ہوگی ۔ اس حدیث شریف سے چھ باتیں ثابت ہوئیں ۔
۱) شیطان عالم خواب اور بیداری میں حضور کی شکل اختیار نہیں کرسکتاہے ۔
۲) سوتے اور جاگتے میں جس نے حضور کی زیارت کی ۔ وہ حضورہی کی زیارت سے مشرف ہوا۔ کسی خبیث جن یا شیطان کو اس نے نہیں دیکھا۔
۳) یہ فرمانِ عالی تمام امت ِمسلمہ کے لئے نوید اوربشارت ہے ۔ چاہے وہ صحابہ کرا م ہوں یا پندرہ سو سال بعد آنے والا امتی ۔ کیونکہ سرکار نے یہ نہیں فرمایا کہ اے میرے صحابہ یہ فرمان صرف تمہارے لئے ہے ۔ تمہارے بعد والے امتیوں کے لئے نہیں ۔
۴) جس نے سرکار کی خواب میں زیارت کی تو سرکار کو اس بات کا علم ہوجاتاہے کہ وہ میری زیارت کررہا ہے ۔ اسی لئے توجاگتے میں بھی اس کو اپنی زیارت سے مشرف فرماتے ہیں ۔
۵ ) یہ حدیث حیات النبی کی بہت بہترین دلیل ہے کہ قبر انور میں جانے کے بعد بھی جہاں چاہنا اورجس کو چاہنا زیارت کروادینا یہ حضو ر کے لئے ممکن ہی نہیں بلکہ ثابت بھی ہے جیسا کہ بے شمار بزرگانِ دین کے واقعات مشہور اور برزبانِ خلقِ خدا ہیں ۔
 ۶) یہ نہیں فرمایا کہ جس نے خواب میں میری زیارت کی تو جاگتے میں فقط ایک مرتبہ ہی میری زیارت سے مشرف ہوگا بلکہ مفہوم حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس نے خواب میں ایک مرتبہ زیارت کرلی توجاگتے میں اسے ضرور زیارت نصیب ہوگی ۔ اب یہ سرکار کے کرم پرمنحصر ہے کہ جاگتے میںکتنی مرتبہ زیارت کرواتے ہیں ۔

۷) جب حضو ر نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارا صلوٰة وسلام مجھ پر پیش کیا جاتاہے اورمیں اسے سنتا ہوں اوراس کا جواب بھی دیتاہوں توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ سرکار کیا بعد الوصال بھی ؟ (آپ ہمارے درود وسلام کو ملاحظہ فرمائیں گے ) توسرکار نے ارشاد فرمایا:
 ان اللّٰہ عزوجل حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاءصلوٰة اللّٰہ علیھم ۔
ترجمہ: بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاءکے جسموں کو کھائے ۔
(ابو داود ص۵۱ج ۱، مسند امام احمد ص۸ج۴


قابل توجہ امر یہ ہے کہ روح بھی سنتی ہے اوربرزخی حیات کا تعلق بھی درحقیقت روح کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اگر چہ جسم گل سڑ بھی کیوں نہ جائے لیکن روح باقی رہتی ہے ۔اس لئے صحابہ کرام کے جواب میں حضور فقط اتنا بھی فرما سکتے تھے کہ ہاں میں تمہارے صلوٰة وسلام کو سنوں گا۔ یعنی میری روح سُنے گی مگر ان کے جواب میں یہ فرمانا کہ اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے ۔ یہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ قبر انور میں جانے کے بعد انبیاءکرام کی حیات فقط برزخی نہیں بلکہ دنیاوی وجسمانی بھی ہے اور وہ اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔
                        خلاصہ یہ کہ انبیاءکرام علیہم السلام کے اجسام صحیح وسالم رہنے پر احادیث صریحہ دال ہیں جن کا کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔
غیب کا جاننے والا وہی ہے ، سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ہاں ، مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو ( سورہ جن 26

، اور اللہ تعالٰی ایسے امور غیبیہ پر تم کو مطلع نہیں کرتے لیکن ہاں جس کو خود چاہیں اور وہ اللہ تعالٰی کے پیغمبر ہیں ، اُن کو منتخب فرمالیتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران 179... See More )
پھر یہی نہیں کہ صرف یہ بات کہی گئی ہو اور علم غیب عطا نہ کیا گیا ہو ، نہیں نہیں ، اللہ تعالٰی نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو یہ علم عطا بھی فرمایا جس کا قرآن حکیم میں تفصیل سے ذکر ہے ، مثلاً یہ آیات ملاحظہ فرمائیں :
1، اور علم دے دیا اللہ تعالٰٰی نے آدم کو سب چیزوں کے اسماء کا پھر وہ چیزیں فرشتوں کے رُوبرو کردیں ( سورہ بقرہ 31 )
2، حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے فرمایا:
اور جو بھی منظور ہوا ان کو تعلیم فرمایا ( سورہ بقرہ 251)
3، حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس علم غیب کا یوں ذکر فرمایا :
اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی کی تعلیم کی گئی ہے اور ہم کو ہر قسم کی چیزیں دی گئی ہیں (سورہ نمل 16 )
4، حضرت لوط علیہ السلام کے لئے فرمایا :
اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا فرمایا ( سورہ انبیاء 74 ایضاً )
5، حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے فرمایا :
اور وہ بلاشبہ بڑے عالم تھے بایں وجہ کہ ہم نے ان کو علم دیا تھا لیکن اکثر اس کا علم نہیں رکھتے ( سورہ یوسف 68 )
6، حضرت یعقوب علیہ السلام نے خود بھی اپنے بیٹوں کے سامنے اس عطائے ربّانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
کیوں ، میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ اللہ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ( سورہ یوسف 96 )
7، حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے فرمایا :
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا ( سورہ یوسف 22 ایضاً)
8، اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے فرمایا :
اور جب اپنی بھری جوانی کو پہنچے اور درست ہوگئے ،ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا (سورہ قصص 14 ایضاً)
9، اور حضرت خضر علیہ السلام کے لئے فرمایا :
انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جن کو ہم نے اپنی خاص رحمت دی تھی اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے خاص طور کا علم سکھایا تھا ( سورہ کھف 65 ایضاً)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے برگزیدہ نبیوں کو ‘‘علم غیب ‘‘ عطا فرمایا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حضرات قدسیہ نے کبھی کبھی اس علم کا اظہار بھی فرمایا جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے پیروکاروں سے یہ ارشاد فرما رہے ہیں :
10، اور میں تم کو بتلا دیتا ہوں جو کچھ اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو رکھ آتے ہو ( سورہ آل عمران 49)
یعنی جس جس نے جو کچھ اپنے گھر میں کھایا اور جو کچھ گھر میں رکھا سب آپ کی نظر میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں قیدیوں کو خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے فرما رہے ہیں :
11، جو کھانا تمھارے پاس آتا ہے جو کہ تم کو کھانے کے لئے ملتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے اس کی حقیقت تم کو بتلا دیتا ہوں ، یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے رب نے تعلیم فرمایا ہے ( سورہ یوسف 37
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے ، اس عطائے خاص سے انکار ، قرآن سے انکار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ علم کوئی معمولی علم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے اہتمام اور تیاری کے بعد عطا فرمایا جاتا ہے اور جس کو عطا فرمایا جاتا ہے اس کے آگے اور پیچھے فرشتوں کے پہرے لگا دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارشاد فرماتا ہے ۔
سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ، ہاں ،مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو تو ، اس (پیغمبر) کے آگے اور پیچھے محافظ (فرشتے) بھیج دیتا ہے ۔(سورہ جن26، )۔
بے شک جس کو یہ علم عطا کیا گیا اس کو بہت کچھ عطا کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو یکساں ‘‘علم غیب ‘‘ حاصل نہیں بلکہ جس طرح انبیاء و رسل میں درجات (سورہ بقرہ 253) ہیں اس طرح علم غیب بھی درجہ بدرجہ عطا کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن حکیم سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور حضرت موسٰٰی علیہ السلام نے وہ علم غیب سیکھنے کی درخواست کی جو اللہ نے اُن کو عطا فرمایا تھا ، حضرت خضر علیہ السلام نے درخواست منظور کی مگر یہ ھدایت فرمائی کہ دیکھتے جانا ، بولنا نہیں ،جب تک میں نہ بولوں ( سورہ کھف 70) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام جو کچھ کرتے گئے ،حضرت موسٰٰی علیہ السلام نہ سمجھ سکے ،آخر رہا نہ گیا ،پوچھ لیا ،حضرت خضر علیہ السلام نے راز سے پردہ اٹھا دیا مگر پھر حضرت موسٰٰی علیہ السلام کو ساتھ نہ رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پوری تفصیل قرآن حکیم میں موجود ہے(سورہ کھف 65، 82۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کو یکساں ‘‘علم غیب ‘‘ نہیں دیاگیا