Aala hazrat per amman ayesha ki jhooti ghustakhi ka jawab

آپ کی منطق بے جا اورغیرضروری استدلال سے متاثر جو ہونگے سو ہونگے؛ میں نہیں ہونے والا۔ مجھے فرقہ پرستی میں دلچسپی نہیں اور رضا خان رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت محض ان کی وفور عشق میں ڈوبی شاعری کی حد تک ہی ہے۔ ان کے اشعار سنتے وقت جو اثرات جسم و روح پر نمودار ہوتے ہیں انہیں سمجھنے کے لیے بھی بغض و عناد سے گلوخلاصی عین ناگزیر ہے ۔ ویسے ہنسی تو مجھے اب بھی آرہی ہے کہ آپ لوگ وہی لکیر کے فقیر ہیں ۔ محترم مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام کا کلام سنا تو ہوگا نا۔۔۔وہ الگ بات کہ سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہونگے ۔ اسی کلام کا ایک شعر ہے جوآپ لوگ عصمت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہہ سے معاذاللہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو بےخب۔۔۔۔۔میں اگلی سطورلکھنےسے قاصر ہوں اور آپکی تفاسیراس کذب مجرمانہ سے بھری پڑی ہیں۔ انہی کے متعلق احمد رضاخان رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار ملاحظہ کیجے اور اپنی آنکھوں سے جہالت کی تیرگی کے نقش مٹا پھینکیں ۔۔۔ سنیں!!
اہل اسلام کی مادران شفیق
بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ
ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام
اگر غور کریں تو آپ کے متعصب حضرات کے منہ پر یہ ایک بھرپور طمانچہ ہے آپ کے علم میں یقینی طور پر ہوگا کہ سورہ نور کن کی عصمت میں اتری ہے۔ اگر نہیں معلوم تو بتاتا چلوں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہہ کی عزت و آبرو کو قیامت تک کے لیے درخشندہ کرنے کو ان کی شان میں اتری۔ جن کی طہارت کا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا مگر کچھ حکمتوں کے تحت آشکار نہ کیا اور وحی کا انتظار فرمایا۔۔۔اب یہاں جو شخص ان کا نام اتنی عزت سے لے رہا ہے۔ ان کی آبرو کی گواہی دینے والی سورت کی توصیف رقم کررہا ہے؛ انہیں ماں کہہ رہا ہے آگے چل کر ایسا بھی لکھ سکتا ہے کسی احمق؛ جاہل؛ متعصب اور پلید شخص کے ذہن میں ہی ایسی منفی اور تخریبی سوچ پنپ سکتی ہے۔ میں نے تو اپنی طرف سے سیدھے سادھے الفاظ میں ثابت کردیا کہ وہ ایسے اشعار ہرگز نہیں لکھ سکتے اب آگے فہم و ادراک رکھنے والا شخص ہی اس حقیقت کو جان سکتا ہے مگر معذرت چاہوں گا اس کے لیے آپ کو تعصب کا چشمہ اتار پھینکنا ہوگا جو کہ بظاہر تو ازحد مشکل نظر آتا ہے
)جواب ضرور دیجیے گا؛ اگر بن پڑے تو!!ویسے جہالت آپ کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ اور ہاں ایک اور بات بھی یاد رکھو تاریخ نے کس کا نام بلند ؛ اونچا؛ درخشاں رکھا ہے؛ کس کےخوبصورت کلام مدحت سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے فضاکو مسحور کرتے رہتے ہیں۔ نہیں بدبختو نہیں۔۔۔یہ سعادت ایسے ذلیلوں کو نہیں عشاق کو ملتی ہے۔۔۔۔عشاق کو۔۔۔تم بکتے رہو۔۔۔سگ آوارہ بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے گزر جاتے ہیں۔۔۔دیکھو ان کا نام خدا نے کتنا بلند کیااور تمہارے کسی بھونکنے والے؛ کسی اعتراض لگانے والے کی کتے کی اوقات بھی نہیں۔۔۔سب مر کر مٹی میں خاک۔۔۔

Bank job per Ftwa

غیراللہ سے مدد طلب کرنا

[QUOTE=Madani;65149]
بسم اللہ الرحمن الرحیم

راناصاحب تمام اہلسنت والجماعت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ مافوق الاسباب امور غیر عادیہ میں کسی کو مشکل کشا حاجت روا مدد گار و معین یا کسی ذات کو مختار کل سمجھنا شرک ہے ۔اور امور عادیہ میں کسی سے مدد طلب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جیسے کسی سے پانی یا قرض یا کھانا وغیرہ کوئی اور چیز طلب کرلی۔
حاجت روا ،مشکل کشا،دستگیر کے الفاظ اپنے مدلول حقیقی کے اعتبار سے نہ تو بذات خود شرکیہ ہیں نہ ان میں شرک والا معنی پایا جاتا ہے مثلا حاجت روا کا معنی ہے مطلقا کسی کی کوئی حاجت ضرورت پورا کردینا مشکل کشا کسی کی کوئی مشکل حل کردینا دستگیر مدد کرنا وغیرہ وغیرہ مگر چونکہ ہمارے ہاں برصغیر میں شیعہ اور بریلوی حضرات ان الفاظ کو ایسے مفہوم و مدلول پر استعمال کرنا شروع کردیا جو صراحة شرک ہیں اس لئے ہم اللہ کے سوا کسی اور ہستی پر ان الفاظ کے اطلاق کو درست نہیں سمجھتے چنانچہ جب کوئی بریلوی کسی پیر یا ولی یا غوث کو مشکل کشا کہتا ہے تو اس کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ ہستی عالم الغیب،حاضر و ناظر ،اور مختار کل سمجھتا ہے ۔اور یہ شرک بلکہ کفر ہے ۔غرض شرک ان الفاظ میں نہیں بلکہ ان الفاظ کو جو عوارض لاحق ہوگئے ہیں اس کی وجہ سے ہے۔

[/QUOTE]
السلام علیکم  
محترم جناب
سب سے پہلے تو میں آپ سے معازرت خواہ ہوں ک جب آپ نے جواب دیا تو میں مصروف ہو گیا ظاہر ہے  دنیا آزمائشوں کا گڑھ ہے اس لیے میں صحیح وقت پر پوسٹ نا کر سکا
اب آتے ہیں ٹاپک کی طرف  سب سے پہلے تو میں آپ کو بتا دوں  کہ آپ نے جتنی بھی باتیں کی
ان میں سے کسی ایک کا بھی حوالہ نہیں دیا مثلاً سب سے پہلے آپ نے کہا کے  بریلوی  حضرات  جب کسی سے مدد مانگتے ہیں تو اسے  عالم الغیب ، مختار کل  یا  حاظر و ناظر کہتے ہیں  تو کیا آپ نے اتنے اہم  اختلاف پر حوالہ دیا یہ بس سر سے بات گھمادی  ؟
آپ کا جواب میں لکھا ہے کہ 
آپ بھی غیراللہ سے مدد مانگنے کے حق میں ہیں یعنی اختلاف صرف عالم الغیب ، مختار کل  یا  حاظر و ناظر
کے ہونے یا نا ہونے پر ہے تو اب میں اس کی بھی وضاحت کر دیتا ہوں

عالم الغیب؟؟؟
میں نے اپنی زندگی میں آج تک کسی بریلوی مولانا سے یہ نہیں سنا کہ کسی نے  حضور
کو عالم الغیب کہا ہو  اب آپ نے الزام لگایا ہے تو  حوالہ پیش کریں  
علم غیب
    غیب کا جاننے والا وہی ہے ، سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ہاں ، مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو  (سورہ جن 26)
بس اس آیت ک مطابق ہمارا  آپ‌
کے علم غیب  کے بارے میں عقیدہ ہے

مختار کل؟؟؟
عالم الغیب  کی طرح  یہ بھی آپ نے الزام ہے لگایا  ہے  یا  آپ ا ہل سنت سے   تعصب  میں اتنا اگے جا چکے ہیں  ْ۔۔۔۔
اس پر میں  آیت الکرسی  کا  حوالہ پیش کرتا ہوں
کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے ؟  (سورہ بقرہ 255 )
اب ہمارہ عقیدہ ہے کی  آپ
کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے  جیسے یہ
حدیث میں ہے کہ
ایک شخص آپ
کے پاس آیا  اور کہا میں صرف دو نمازیں ہی پڑھوں گا پھر اسلام قبول کروں گا  آپ نے نے کہا  ٹھیک ہے تو 2 نمازیں ہی پڑھ لینا تو اس نے اسلام قبول کر لیا  (مشکوٰة )
اب اپ بتایں ایک اللہ کی طرف سے فرض عبادت میں آپ
نے رعایت عطا کردی   یا  آ پ جانتے تھے یہ بعد میں 5 نمازیں پڑھنا شروع کر دیگا
 میں آپ سے ڈیمانڈ کرتا ہوں ک اگر کسی بریلوی مولانا نے آپ
کو مختار کل یا عالم الغیب کہا ہے تو حوالہ پیش کریں  ؟؟

حاظر ناظر 
حاظر کا معنی  :   موجود، جو سامنے ہو
ناظر کا معنی : دیکھنے والا، مشاہدہ کرنے والا، نظر ڈالنے والا
اب ہمارہ یہ عقیدہ ہے کہ  آپ ۖ اپنی قبر مبارک میں  حاظر ہیں   اور  پورے جہان پر ناظر ہیں   یعنی پورے جہان کو دیکھ رہے ہیں یا دیکھ سکتے ہیں
آپ ۖ کے ناظر ہونے کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث  پیش کرتا ہوں 
آپ ۖ نے  فرمایا میں تمہارپیش رو ہوں اور تمہارہ گواہ ہوں اور خدا کی قسم میں اس وقت  حوض جام کوثر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
(بخاری کتاب الحوض جلد ٢ صفحہ 978
)

قیامت تو ابھی قائم بھی نہیں ہوئی لیکن آپۖ  ناظر تھےیا
 قیامت پر تو کیا اس جہان پر ناظر نہیں ہو سکتے  ؟؟
دوسرا  معراج  کا  واقعہ تو آپ کو بھے پتہ ہو گا کے تمام انبیاء وصال کے بعد مسجد اقصیٰ میں حاظر تھے اور آسمانوں پر بھے حاظر تھے لیکن  آپ کو صر ف آپ ۖ کے حاظرو ناظر  ہونے پر ہی اعتراض ہے  تو کیا جواب ہے آپ کا  ؟ 
اور قرآن میں  آپ ۖ کو شاہد کہا گیا ہے اس ک بارے میں آپ کا کیا جواب ہے  ؟؟

[QUOTE]اسی طرح سمجھیں کہ جب آپ کسی کو مختار کل مان کر مشکل کشا کہیں گے تو ممنو ع اور اگر ایسا نہیں تو جائز ۔ہمارے بھائی نے اسی معنی کو کفر کہا جو آپ سمجھتے ہیں یعنی جس معنی میں آپ اولیاءاللہ سے مد د طلب کرتے ہیں وہ شرک ہے اس معنی میں مدد صرف اللہ کرتا ہے ۔[/QUOTE]

آپ نے کہا  غیر اللہ سے مدد مانگ سکتے ہیں لیکن مدد مانگنے والے کا یہ عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ۖ عالم الغیب ، مختار کل  یا  حاظر و ناظرہیں  تو آپ اس بات کو اپنے کسی فتوے سے ثابت کریں  یہ کسی معتبر دیوبندی مولانا سے ہی ثابر کر دیں جس نے غیر اللہ سے مدد مانگنے کے ساتھ یہ  3  شرائط لگائی ہوں  ؟؟؟؟؟

 پھر آپ نے کہا کے فرشتوں سے آپ ۖ نے مدد مانگی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مدد ک لیے بھیجا
لیکن  آپ کے مولانا زکریا صاحب تو ڈائریکٹ  آپ ۖ سے مدد مانگ رہے ہیں جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں



 

شرک و توحید کے پوسٹر کا جواب


Bait our Peeri Muridi

مردوں کا قبر میں سننے کا بیان

آیت ۔ وما انت بمسمع من فی القبور ان انت الا نذیر کے جوابات:
ترجمہ: آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں ۔آپ توفقط ڈرانے والے ہیں۔
                        ان آیات کا مفہوم غلط بیان کرکے امت مسلّمہ کو دھوکے میں ڈالا گیا۔ کوئی بھی صاحبِ عقل وخرد اس بات سے بیگانہ نہیں کہ جہاں حضور کے بارے میں یہ فرمان ہے:
آپ تو ڈرانے والے ہیں“۔اس کا تعلق مُردوں سے نہیں ہوگا کیونکہ ڈرانے کاتعلق انہی لوگوں سے ہے جواس دنیا میں موجود ہیں اورجو اس دنیا سے چلے گئے انہیں جہنم سے ڈرانا بے فائدہ اوربے معنی ہے ۔ پس آپ ان آیات کو پڑھ کر یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں پر بھی زندہ کافروں کو ہی مردہ اوراہل قبور سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ آیا ت ملاحظہ ہوں:
وما یستوی الاحیاءولاالا موات ان اللّٰہ یسمع من یشاءوماا نت بمسمع من فی القبور ان انت الا نذیر۔
 (سورة فاطر آیت ۳۲۔۲۲)
ترجمہ: زندہ اورمردے برابر نہیں ۔ بے شک اللہ سناتا ہے جسے چاہے اورآپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ آپ تو فقط ڈرانے والے ہیں ۔
آیات مذکورہ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جن لوگوں کو ڈرانے کا ذکر ہوا یہ وہی لوگ ہیں جن سے سنانے کی نفی ہوئی اورڈرایا زندہ کو جاتاہے نہ کہ مردہ کو تونتیجہ یہ نکلا کہ سنانے کی نفی بھی زندہ لوگوں سے متعلق ہوئیں تو یہ ہمارے مؤقف کے خلاف نہیں کیونکہ ہم ان لوگوں سے متعلق گفتگو کررہے ہیں جواس دارِ فانی سے رحلت کرگئے ۔حالانکہ یہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں ۔ا لحاصل یہ دونوں آیات ہمارے مدعیٰ کے خلاف نہیں۔
                        رہا یہ اعتراض کہ زندہ سے سنانے کی نفی کس طرح تواس بارے میں عرض ہے کہ یہاں پر سنانے سے مراد یہ نہیں کہ وہ فقط کانوں سے سن لیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے دل بھی اس حق کی پکار کو قبول کریں ۔ چونکہ جن لوگوں کے دلوں پر مہر لگ چکی ان حضرات میں حق بات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی ۔ جیسا کہ سورئہ اعراف میں ہے:
ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لایفقھون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا ولھم ٰاذان لایسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون ۔ (الاعراف آیت ۹۷۱)
ترجمہ: اوربے شک ہم نے دوزخ کے لئے بہت سے جن اور انسان پیدا کئے ۔ ان کے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اوران کی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اوران کے کان ہیں جن سے وہ نہیں سُنتے ۔ وہ لوگ چوپائیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ وہی غفلت میں مبتلا ہیں۔
                        اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نہ سمجھنا، نہ دیکھنا، نہ سُننا اورچوپائیوں کی طرح ہوجانا بلکہ ان سے بھی زیادہ گیا گذرا ہونا یہ تمام اموران کافروں کے لئے اللہ نے ثابت فرمائے جو چلتے پھرتے کھاتے پیتے بولتے اورسُنتے تھے ۔ چونکہ وہ اللہ کی نافرمانی میں بہت آگے بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے خود اپنے اوپر غفلت اورگمراہی کے اتنے پردے چڑھالئے تھے کہ ان کا واپس آنا ممکن نہ رہا تھا ۔ اس لئے یہ تمام امور ان کے لئے ثابت ہوگئے ۔
                        پس اہل حق بھی یہی کہتے ہیں کہ ان خرابیوں کی بناءپر ان کافروں کو ”الموتیٰ اورمن فی القبور“ سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ نیز مُردوں کے سننے کی نفی کس طرح کی جاسکتی ہے جبکہ بے شمار احادیث سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے :
"عن انس ان النبی قال العبد اذا وضع فی قبرہ وتولّی وذھب اصحابہ حتی انہ یسمع قرع نعالھم "
 (بخاری شریف ج۱ص۸۷۱)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ جب قبر میں دفن کردیا جاتاہے اوراسے چھوڑ کر اس کے ساتھی واپس آجاتے ہیں تومیت ان لوگوں کے قدموں کی چاپ کی آواز سنتی ہے ۔
                        جمہور علماءنے اس حدیث کے متعلق یہی قول کیا کہ وہ میت لوٹ کے جانے والوں کی چاپ کی آواز سنتی ہے۔
                        یہاں فرشتوں کے جوتوں کی آواز مراد نہیں کیونکہ فرشتوں کے لئے قرآن وحدیث میں جوتوں کا ثبوت نہیں تواس کی آواز سُننا کیونکر ممکن ہوگی ۔
                        چونکہ مسلم شریف میں صاف ارشاد ہے ۔یہ انہیں لوگوں کی جوتوں کی آواز ہے جو دفنانے آئے تھے یعنی فرشتوں کے قدموں کی آواز نہیں۔ حدیث ملاحظہ ہو۔
قال رسول اللّٰہ ان المیت اذاوضع فی قبرہ انہ یسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا ۔ (مسلم ج۲ص۱۰۷۳)
ترجمہ: رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ میت کو جب قبر میں دفنا یا جاتاہے تو میت ان کے قدموںکی چاپ کی آواز سنتی ہے جب وہ لوگ واپس جاتے ہیں۔
نوٹ: صرف چند بحثیں عرض کی گئی ہیں مزید فقیر کے رسائل پڑھئے اورامام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کی تصنیف ”روحو ں کی دنیا“ کامطالعہ کیجئے ۔ فقط والسلام

انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا

انسان کا قبر میں تلاوتِ قرآن مجید کرنا:

            ترمذی شریف ”باب فضائل القرآن“ میں ہے
عن ابن عباس قال ضرب بعض اصحاب النبی خباءہ علی قبر وھولا یحسب انہ قبر فاذا قبر انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فاتی النبی فقال یارسول اللّٰہ انی ضربت خبائی علیٰ قبر وانا لا احسب انہ قبرفاذا فیہ انسان یقراءسورة الملک حتی ختمھا فقال النبی ھی المانعة ھی المنجیة تنجیہ من عذاب القبر (ترمذی شریف۔ باب فضائل القرآن ج۲ص۷۱۱)
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ کسی صحابی نے ایک قبر کے اوپر خیمہ لگایا۔ انہیں گمان نہ تھا کہ یہ قبر ہے پس وہ ایک انسا ن کی قبر تھی تواس انسان نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔وہ صحابی نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اورمجھے معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے ۔پس سرکار! اس میں توانسان ہے جس نے مکمل سورئہ ملک کی تلاوت کی ۔ پس نبی کریم نے ارشاد فرمایا۔ سورئہ ملک عذابِ قبر کو روکنے اورنجات دلانے والی ہے ۔
فوائد الحدیث:
۱) صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ عقیدہ تھا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید ممکن ہے تبھی تو انہیں یہ گمان نہ گذرا کہ کوئی جن یا فرشتہ تلاوت کررہا ہوگا بلکہ انہوں نے انسان ہی کا ذکر کیا۔
۲) حضور نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ قبر میں جانے کے بعد تلاوتِ قرآن مجید کیونکر ممکن ہے ؟ بلکہ اس صحابی کا قول کہ قبر میں انسان تھا۔ برقرار رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سورئہ ملک عذابِ قبر سے نجات دلاتی ہے ۔
۳) عذاب دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اورعذابِ قبر سے نجات دلانے والی سورة قرآن مجید ہے تویہ کہنا کیونکر جائز ہوگا کہ اللہ کسی کو عذاب میں مبتلا فرمائے تو حضور بھی بارگاہِ ایزدی میں سفارش فرما کر اسے عذاب سے نجات نہیں دلاسکتے اگر سورة نجات دلاسکتی ہے تو حضور اس سے اولیٰ ترہیں ۔
۴) مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاءعلیہم السلام اوراولیاءکرام اپنی قبروں میں جانے کے بعد صرف برزخی اورروحانی حیات سے ہی موصوف نہیں ہوتے بلکہ جسمانی حیات بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ کیونکہ سُننا ، بولنا، پڑھنا اورحرکت کرنا جسمانی حیات کے لوازمات میں سے ہیں ۔ پس اللہ کے بیشمار برگزیدہ بندے اس صفت سے موصوف ہوتے ہیں ۔
آیت اِنَّکَ لَا تُسمِعُ المَوتیٰ کے جوابات:
                        اس آیت سے متعلق بعض لوگوں نے ایسا کلام کیا جس کی حقیقت حباب اورسراب سے زیادہ بے وقعت ہے مثلاً آیت مذکورہ کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ۔ ”بیشک آپ مُردوں کو نہیں سُنا سکتے ۔“ لیکن کسی صاحب شعور سے یہ بات مخفی نہیں کہ ” لَاتُسمِعُ المَوتیٰ“
 آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے ۔میں ”سکتے “ کسی بھی لفظ کا ترجمہ نہیں کیونکہ ”تُسمِعُ “ جس کا مصدر ”اسماع“ ہے اس کا معنی ”سنا سکنا“ نہیں بلکہ ” سنانا “ہے ۔پس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں ہوا:
"یقینا آپ مُردوں کو نہیں سناتے“ اوراس ترجمے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ۔
تحریف قرآن
                        مزید برآں یہ کہ آیت کافروں کے لئے نازل ہوئی لیکن اسے مومنین پر چسپاں کرنے کی بھیانک سازش کی گئی ۔ آپ خود سورة نمل کی آیت نمبر ۰۸، ۱۸ کو ملا کر پڑھیں توبات واضح ہوجائے گی کہ نہ سنانا کافروں کے لئے ہے اورمومنین کے لئے سنانا ثابت ہے آیات ملاحظہ ہوں ۔
انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعاءاذا ولو مدبرین وما انت بھا دالعمی عن ضلا لتھم ان تسمع الا من یومن بایتنا فھم مسلمون ۔
(سورہ نمل ،آیت ۰۸،۱۸)
بے شک آپ نہیں سناتے مردوں کو اورنہیں سناتے بہروں کو پُکار ۔جب وہ پیٹھ پھیر ے جارہے ہوں اورنہ آپ راہ پر لانے والے ہیں اندھوں کو ان کی گمراہی سے آپ نہیں سناتے مگر ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں تووہی مسلمان ہیں ۔
فائدہ: دیکھنا یہ ہے کہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں یا مردہ سے اگر کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے جواس دارِ فانی سے رحلت کرکے عالم برزخ میں پہنچ گئے تب یہ آیات انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے لئے بعد الممات سُننے کا ثبوت فراہم کررہی ہیں ۔وہ اس طرح کہ ان آیات میں دوقسم کے لوگوں کا بیان ہوا ایک وہ جنہیں سنانا ثابت نہیں اوروہ کافر ہیں ۔ دوسرے وہ حضرات ہیں جن کے لئے سنانا ثابت ہیں اوروہ مسلمان ہیں۔
                        پس اہلِ حق کا بھی یہی کہنا ہے کہ انبیاءواولیاءکی قبور پر حاضر ہوکر ان سے گذارشات کرنا بالکل جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں مومنین کے لئے سنانا ثابت ہے ۔ اس لئے وہ ہماری پکار ملاحظہ فرماتے ہیں۔
                        اگر یہ کہا جائے کہ ان آیات میں ان لوگوں کا بیان نہیں جو حقیقتاً اس دنیا سے کوچ کرگئے بلکہ کافروں کو مردہ بہرے اور اندھوں سے تعبیر کرکے یہ بات واضح کردی کہ یہ لوگ احکام الہٰی اورفرامین رسول کبریاء سے نافرمانی اورروگردانی میں مُردوں ، اندھوں اوربہروں کی مانند ہوچکے ہیں کہ انہیں حق کی پکار کسی طرح بھی نافع نہیں تو ہمارا کلام ان آیات سے متعلق نہیں کیونکہ ہمارا کلام تواس بارے میں ہے کہ انبیاءواولیاءقبروں میں جانے کے بعد بھی سنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ آیات زندہ لوگوں سے متعلق ہیں ۔ پس دونوں صورتیں ہمارے مدعا کے خلاف نہیں یعنی اگر آیات زندہ کے بارے میں ہوں توہمار ا کلام اس میںنہیں ۔ اگر مردہ سے متعلق ہوں تومسلمانوں کے لئے سنانا ثابت ہے ۔